Journey From Human Power to Machine Power | انسانی طاقت سے مشینی طاقت تک کا سفر

Man has been engaged in the search for something new from the very beginning and this discovery has forced him to travel,

Thus man began his first journey on foot, which was later followed by animals, today he has reached car rides and thus the journey of months ended in days.

Similarly, the first voyage of human life was started by the ancient Egyptians in the 4th century B.C.E from the Nile River and this voyage introduced man to new experiences.


His trend continued until the early part of the eighteenth century.

In 1712, Thomas Newcomen invented the ship's first steam engine. Later, James Watt improved its performance in the mid-eighteenth century, and it remained in use until the end of the eighteenth century.

THOMAS NEWCOMAN

In 1803, William Symington, a Scottish engineer, introduced the steam-powered boat, named the Lady of Charlotte Dundas, which later became the world's second most successful marine invention.


LADY CHARLOTTE DUNDAS

In 1807, American engineer Robert Felton introduced the world's first commercial steamboat using the power of the Watt engine.

These steamboats could not be more effective in the deep sea due to their heavy weight, low speed and lack of strength, but they were known to be best used for small voyages, rivers and large canals.

In 1819, the SS Savannah sailed across the Atlanta Ocean to Georgia, from the United States to Liverpool, England

S.S SAVANNAH STEAM SHIP

Following the successful voyage of the SS Savannah, in 1838 the Great Western steamship began its regular voyage.

Finally, from the beginning of the nineteenth century, the engine and size of ships began to innovate. Wood was replaced by iron and steel, and side paddles were replaced by propellers due to the lack of optimal performance in the open and deep seas. Helped greatly in improving the design and performance of the ship.

Today, travel through sea is not so common, but until the end of the 19th century it was considered the best and most comfortable way of travel.

(It is important to clarify the statement here that even today, 80% of the world's trade is done by sea)

Written By Syed Murtaza Hassan.

Thanks for joining the blog so far. 


___________________________________________________________________________________

IN URDU

___________________________________________________________________________________

انسان شروع سے ہی کچھ نیا جاننے کی کھوج میں مصروفِ عمل رہا ہے اور اُس کی اسی کھوج نے اُسے سفر پر مجبور کیا 

اسطرح انسان نے اپنا پہلے سفر کی ابتدا پیدل چلنے سے کی جو بعدازں  جانوروں سے ہوتی ہوئی، آج گاڑیوں کی سواری پر آپہنچی ہے اور یوں مہینوں کا سفر دنوں  پر تمام ہوا۔

اسی طرح انسانی  زندگی کا پہلا سمندری سفر کا آغاز چوتھی صدی میں قدیم مصری باشندوں نے دریائے نیل سے کیا  اور اس سفر نے انسان کو نئے تجربات سے متعارف کروایا شروعاتی دُور کی یہ ایجاد انسانی طاقت پر منحصر تھی اور سمندری سفر میں انسانی طاقت کے استعمال کا یہ سلسلہ آٹھارویں صدی کے شروعاتی دور تک جاری رہا۔



سنہ 1712ء میں تھامس نیوکومین نے سمندری جہاز کا ابتدائی بھاپ انجن ایجاد کیا  بعدازں جیمز واٹ نے آٹھاروِیں صدی کے وسط میں اس کی کارکردگی کوبہتربنایا، تھامس کی یہ ایجاد آٹھارویں صدی کے آخر تک زیرِ استعمال رہی

تھامس نیوکومین

سنہ 1803ء میں اسکوٹ لینڈ سے تعلق رکھنے والے ایک انجینر ولیم سیمنگٹن نے بھاپ کے انجن کی مدد سے چلنے والی کشتی متعارف کروائی جسے لیڈی آف چارلوٹ ڈاونڈٰٔس کا نام دیا گیا بعدازں یہ کشتی دنیا کی  دوسری کامیاب ترین سمندری ایجاد تسلیم ہوئی

لیڈی آف چارلوٹ ڈاونڈٰٔس

سنہ 1807ء میں امریکا سے تعلق رکھنے والے انجینر روبرٹ فیلٹن نے دنیا کی پہلی تجارتی بھاپ سے چلنے والی کشتی متعارف کروائی  جس میں وُاٹ انجن کی طاقت کا استعمال کیا گیا۔

وُاٹ انجن

بھاپ سے چلنے والی یہ کشتیاں اپنے بھاری وزن، رفتار میں کمی اور طاقت ور نہ ہونے کی بدولت گہرے سمندر میں زیادہ کارگر ثابت نہ ہوسکیں لیکن چھوٹے سفر، دریا اور بڑی نہروں میں استعمال کے لئے یہ بہترین جانی جاتی تھیں۔ 

سنہ 1819ء میں ایس ایس سوانہ نامی سمندری جہاز نے اٹلانٹا کے گہرے سمندر کو پار کرتے ہوئے جورجیا، امریکا سے لیور پول، انگلینڈ تک کا سفر کیا یہ سمندری جہاز فریکٹ اینڈ کریکٹ نامی شپ یارڈ، نیویارک میں تیار کیا گیا تھا

ایس ایس سوانہ

 ایس ایس سوانہ کے کامیاب سفر کے بعد،  سنہ 1838 میں گریٹ ویسٹرن نامی بھاپ سے چلنے والے جہاز نے باقاعدہ سمندری سفر کا آغاز کر دیا تھا۔

بالآخر انیسویں صدی کی شروعات سے ہی بحری جہاز کے انجن اور جسامت میں جدت آنا شروع ہو گئی لکڑی کی جگہ  لوہے اور اسٹیل نے لی اور کھلے اور گھرے سمندر میں زیادہ بہترین کارکردگی نہ ہونے کی بدولت سائیڈ پیڈل کی جگہ پروپیلر نے لی اور اس طرح جہاز کے ڈزائن اور کارکردگی کو بہتر کرنے میں کافی حد تک مدد ملی۔

آج بے شق سمندری کے زریعے سفر اتنا عام نہیں رہا، لیکن انیسویں صدی کے آخر تک یہ بہترین اور آرام دہ سفر مانا  جاتا تھا۔

(یہاں اس بیان کی وضاحت ضروری ہے کے آج بھی دنیا کی اسی فیصد تجارت سمندری جہازوں کے زریعہ ہی ہوتی ہے)

اب تک کے بلاگ میں ساتھ دینے کا شکریہ۔    

0 Comments

Oldest
A Wonderful invention | ایک عجوبہ ایجاد